مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا

مسکنِ ماہ و سال چھوڑ گیا
دِل کو اُس کا خیال چھوڑگیا
تازہ دم جسم و جاں تھے فرقت میں
وصل، اُس کا نِڈھال چھوڑ گیا
عہدِ ماضی جو تھا عجب پُرحال !
ایک وِیران حال چھوڑ گیا
ژالہ باری کے مرحَلوں کا سفر
قافلے، پائمال چھوڑ گیا
دِل کو اب یہ بھی یاد ہو، کہ نہ ہو !
کون تھا، کیا ملال چھوڑ گیا
میں بھی اب خود سے ہُوں جواب طلب
وہ مجھے، بے سوال چھوڑ گیا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *