بے زبانی میں گھرے ہیں موسم

بے زبانی میں گھرے ہیں موسم
آؤ کچھ دیر تو ہم بات کریں
تم گئے ہو تو مرے حرف تمام
منتشر ہو کے اڑتے پھرتے ہیں شریانوں میں
جیسے بھٹکے ہوئے کچھ لوگ بیابانوں میں
قید خانوں کی قسم بندلبوں کے پیچھے
کس طرح مرتی ہے آواز کسے کیا معلوم
کس طرح گھٹتا ہے اظہار کا دم
کس طرح ہوتا ہے بے چینی کا آغاز
کسے کیا معلوم
بن ترے سولی کے اس کرب کا انداز
کسے کیا معلوم
تُو تو سب جانتا ہے
کیوں نا اس برف خموشی کے حوالے ہم تم
اپنے الفاظ کی سوغات کریں
یہ جو چپ چاٹ رہی ہے دل کو
کیوں نہ کچھ بول کے پتھر پہ مرتب ہم بھی
اپنے اثرات کریں
آؤ کچھ دیر تو ہم بات کریں
بے زبانی میں گھرے ہیں موسم
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *