چاند نکلے تو کیا

چاند نکلے تو کیا
چاند نکلا نہیں
اور جو نکلے بھی تو
چاند راتوں سے اپنی پرانی شناسائی کے خوف سے
ایک مدت سے ہم آسمانوں کی جانب نہیں دیکھتے
آنکھ برسی نہیں
اس لیے کہ دکھوں اور غموں کی فضاؤں سے
در آنے والی گھٹاؤں کو ہم
راستوں میں کہیں دُور چھوڑ آئے ہیں
اور پھر ہم میں اب
بارشوں کی رُتیں اپنی آنکھوں میں لانے کی ہمت نہیں
یاد آیا نہیں
وہ جو بھولا نہیں تھا کبھی بھی ہمیں
وہ جو اترا نہیں تھا کبھی ذہن سے
اک مدت سے وہ یاد کی بستیوں کے کھنڈر میں
کہیں دفن ہے
اور اس نے ابھی تک بلایا نہیں
اب تو کچھ بھی نہیں
زندگی بھی نہیں، جسم کا ڈھیر ہے
سانس کے جرم میں فیصلے کی گھڑی اک ذرا دیر ہے
منتظر ہے کہ بس فیصلے کی گھڑی اک ذرا دیر ہے
چاند نکلے تو کیا
آنکھ برسے تو کیا
یاد آئے تو کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *