عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا

عشق بلا پرشور و شر نے جب میدان میں خم مارا
پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا
بود نبود کی اپنی حقیقت لکھنے کے شائستہ نہ تھی
باطل صفحۂ ہستی پر میں خط کھینچا قلم مارا
غیر کے میرے مر جانے میں تفاوت ارض و سما کا ہے
مارا ان نے دونوں کو لیکن مجھ کو کر کے ستم مارا
ان بالوں سے طلسم جہاں کا در بستہ تھا گویا سب
زلفوں کو درہم ان نے کیا سو عالم کو برہم مارا
دور اس قبلہ رو سے مجھ کو جلد رقیب نے مار رکھا
قہر کیا اس کتے نے کیا دوڑ کے صید حرم مارا
کاٹ کے سر عاجز کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی
فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں ایسا کیا رستم مارا
جس مضمار میں رستم کی بھی راہ نہ نکلی میرؔ کبھو
اس میداں کی خاک پہ ہم نے جرأت کر کے قدم مارا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *