خاموشی کا ویرانہ رہا، بات کا صحرا

خاموشی کا ویرانہ رہا، بات کا صحرا
کچھ ایسے بتایا ہے ملاقات کا صحرا
اک شعلہِ جاں جس پہ تری یاد کا خیمہ
اور چاروں طرف پھیلا ہوا رات کا صحرا
اشکوں سے بھلا پیاس کہاں بجھتی ہے دل کی
اک صحن ہے اور صحن میں برسات کا صحرا
پانی نظر آتا ہے نہ چھاؤں ہے کہیں پر
ہر شہر میں در آیا ہے حالات کا صحرا
ممکن ہے کبھی پھر ترے آجاؤں مقابل
سینے میں دہکتا ہے ابھی مات کا صحرا
سوچیں ہیں مگر دکھ کی ریاضت نہیں پیچھے
اذہان کہ لگتے ہیں خیالات کا صحرا
یک طرفہ تمناؤں کے چھالے نہیں جاتے
دل جب سے گزار آیا تری ذات کا صحرا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *