رو دینے سے پہلے خود کو تھام لیا تھا
دکھ کی دھوپ میں کیسی ناگن ہے دل والو
مجھ کو اکثر راتوں کو بھی ڈس لیتی ہے
دفنانے آئے تھے میری آرزؤں کو
قبریں کھلی ہوئی ہی چھوڑ گئے ہیں ظالم
دل کے اندر صحرا بھی بڑھتا جاتا ہے
دیر گئے تک بارش بھی ہوتی رہتی ہے
ہم بھی ساتھ چلے تھے اس کے تھوڑی دور
اور پھر سوچا ٹھیک یہی ہے واپس ہو لیں
بھولی بسری شامیں تھی اس کاجل میں
کبھی کبھی آنکھوں سے باہر آجاتی تھیں
ہم نے اکثر ایسے زرد اجالے دیکھے
جیسے کسی نے خون نچوڑ لیا ہو ان کا
فرحت عباس شاہ