دوسری بستی

دوسری بستی
تو کہاں ہے کہ یہ معصوم سا دل
یوں مرے پاس ہے جیسے کوئی لے پالک ہو
بے قراری کسی آیا کی طرح
رات بھر گود لیے رکھتی ہے
تو کہاں ہے
کہ تجھے کھل کے پکارابھی نہیں جا سکتا
وحشتیں شور مچاتی ہیں مگر
مصلحت ہونٹ سیے رکھتی ہے
بوجھ رکھ دوں کوئی سینے پہ کچھ ایسا کہ ترے ہجر کا پتھر مجھے محسوس نہ ہو
آنکھ بھر دوں کسی دریا سے
کہ بھیگے ہوئے گوشے نہ رہیں
درد کو اور کسی درد میں محصور کروں
کونسا دوست ہے ایسا جسے مجبور کروں
اور کہوں تُو ہی کہیں سے اسے جا کر لے آ
تو کہاں ہے
کہ ترے بعد کوئی بستی ہے
ایسی بستی کہ جہاں تیرے علاوہ سب ہیں
ایسی بستی جو مجھے قید کیے رکھتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *