رات کسی طرح کٹی

رات کسی طرح کٹی
نیند بے سود ہی ٹکراتی رہی
آنکھ کی بے خوابی سے
سانس رہ رہ کے الجھتی رہی بے تابی سے
کوئی بے وجہ سا دکھ
روح میں بے چین رہا
ایک دریا کہ رہا خون میں طغیانی پر
ایک جنگل کہ بضد کرب بیابانی پر
کوکتے کوکتے دل زخمی پرندے کی طرح
پھڑ پھڑاتا ہوا کچھ دیر ٹھہر جاتا تھا
آسماں سے کوئی گھنگھور اندھیرا جیسے
اور کچھ اور ہر اک سمت بکھر جاتا تھا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سور ہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *