کبھی لفظ گُم کبھی لب نہیں

کبھی لفظ گُم کبھی لب نہیں
ترے روز و شب
ترے لہلہاتے یہ روز و شب
ترا جگمگاتا یہ دن۔۔۔
سدا تری جھلملاتی یہ رات۔۔۔
چلتے رہیں گے یونہی قطار میں
کسی ہجر ناک حصار میں
یونہی آگے پیچھے لڑھک لڑھک کے تھکیں گے
مل نہ سکیں گے دیر و دیار میں
کئی لوگ بھی
یہاں ایک دوجے کے پَلّوؤں سے بندھے ہوئے کئی لوگ بھی
یونہی چل رہے ہیں بنا ملے
یونہی آ گے پیچھے قطار میں
کبھی رک کے ، بیٹھ کے ساتھ
تھام کے آرزوؤں کے ہاتھ بو ل نہیں سکے
کبھی اپنے اپنے دلوں کے درد کے بھید کھول نہیں سکے
کبھی دن نہیں، کبھی شب نہیں
کبھی لفظ گم کبھی لب نہیں
کبھی بات کرنے کا ڈھب نہیں
کبھی تب نہیں کبھی اب نہیں
یونہی چل رہے ہیں قطار میں
کسی بے زبانی کی مار میں
کبھی بد نصیبی کی جیت میں، کبھی خوش نصیبی کی ہار میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *