سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں
سرخ آنکھیں خشم سے کیں ان نے مجھ پر صبح کو
دیکھی یہ تاثیر شب کی خوں چکاں فریاد میں
یہ تصرف عشق کا ہے سب وگرنہ ظرف کیا
ایک عالم غم سمایا خاطر ناشاد میں
عشق کی دیوانگی لائی ہمیں جنگل کی اور
ورنہ ہم پھرتے بگولے سے نہ خاک و باد میں
دیر لگتا ہے گلے تلوار پر وہ رکھ کے ہاتھ
خوبیاں بھی تو بہت ہیں اس ستم ایجاد میں
یہ بنا رہتی سی آتی ہے نظر کچھ یاں مجھے
اچھی ہے تعمیر دل کی اس خراب آباد میں
میرؔ ہم جبہ خراشوں سے کسو کا ذکر کیا
وے ہنر ہم میں ہیں جو تھے تیشۂ فرہاد میں