فریبِ آرزو

فریبِ آرزو
صندلیں پیکر، تمہارے بازؤں کے درمیان
فارہہ کا غم بھلانے کے لیے آیا ہوں
زندگی کی اک حقیقت کو تمہارے رو برو
ایک افسانہ بنانے کے لیے آیا ہوں
فارہہ کی یاد میرے حافظے سے چھین لو
اپنا سرمایہ لٹانے کے لیے آیا ہوں
انتقاماََ چاہئے اب مجھ کو اک حالِ طرب
آج طنزاً مسکرانے کے لیے آیا ہوں
اب تو ہر نقشِ خیالی کو مٹانا ہے مجھے
اب تو سب کچھ بھول جانے کے آیا ہوں
کر کے تعمیر اک بتخانہ برائے بندگی
کعبۂ نِخوت کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں
اب تو بس تم ہو فقط تم! فارہہ کچھ بھی نہیں
تم کو سینے سے لگانے کے لیے آیا ہوں
میری خوش منظر جوانی بھی تو کوئی چیز ہے
تم سے اس کی داد پانے کے لیے آیا ہوں
رائگاں اب تک گئے میرے سخن کے معجزے
تازہ اعجازی دکھانے کے لیے آیا ہوں
کاش تم میری جبین کو چوم لو، ہاں چوم لو!
مطلعِ فن جگمگانے کے لیے آیا ہوں
تم سے بھی شاید مجھے غم کا عطیہ ہی ملے
پھر بھی تازہ زخم کھانے کے لیے آیا ہوں
شاخِ دل کو لمحہ لمحہ اِک نُمو تو چاہیے
زندگی کو اِک فریبِ آرزو تو چاہیے
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *