کچھ اس طرح سے مقدر فریب دیتا ہے

کچھ اس طرح سے مقدر فریب دیتا ہے
کبھی نگر تو کبھی گھر فریب دیتا ہے
نہ کوئی صحن میں اترا ہے اور نہ رویا ہے
اداس رات کا منظر فریب دیتا ہے
کبھی کھٹاک سے کھلتا کبھی کھٹکتا ہے
تمام رات ہمیں در فریب دیتا ہے
کبھی لگا ہی نہیں سخت پتھروں کی طرح
تھکے ہوؤں کو سمندر فریب دیتا ہے
کہیں بھی کوئی نہیں ہے برونِ حلقہِ ذات
ہمیں ہمارا ہی اندر فریب دیتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *