تو مرے لیے وہ بساط تک نہ پلٹ سکا

تو مرے لیے وہ بساط تک نہ پلٹ سکا
جسے چھوئے جانے میں بھی شکست کا خوف تھا
مجھے جاں کنی کی سرشت کا بڑا علم ہے
میں گزار آیا ہوں نارسائی کی بے بسی
سوئے کار زار فنائے ہستی مضطرب
مجھے لے چلے ہو تو صبر و شکر کا ذکر کیوں
مجھے اپنے آپ میں مل گئی ہیں تسلیاں
میں کچھ اس لیے بھی تو ہنس پڑا ہوں یقین پر
جنہیں ڈر نہیں انہیں موت تک کا بھی ڈر نہیں
جنہیں خوف ہے انہیں زندگی کا بھی خوف ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *