کر کے برباد جو اب پوچھتا ہے

کر کے برباد جو اب پوچھتا ہے
وہ مرے غم کا سبب پوچھتا ہے
کب بھلا ملتا ہے کچھ بن مانگے
خود خدا تعالیٰ طلب پوچھتا ہے
کر کے نقصان مرا لوگوں سے
وہ مرا غیظ و غضب پوچھتا ہے
پہلے منصور سے جا کر پوچھے
جو مرا نام و نصب پوچھتا ہے
لوگ تو سود و زیاں دیکھتے ہیں
کوئی مجھ جیسوں کو کب پوچھتا ہے
روز اک زخمی پرندہ مجھ سے
زندہ رہ لینے کا ڈھب پوچھتا ہے
بے حسی سے بھری اس دنیا میں
مرا ایمان ہے رب پوچھتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *