کہیں سے دکھ تو کہیں سے گھٹن اٹھا لائے

کہیں سے دکھ تو کہیں سے گھٹن اٹھا لائے
کہاں کہاں سے نہ دیوانہ پن اٹھا لائے
عجیب خواب تھا، دیکھا کہ دربدر ہو کے
ہم اپنے ملک سے اپنا وطن اٹھا لائے
شکستہ لوگوں کا کیا ہے بجُز نصیب کُشی
سفر سے پہلے سفر کی تھکن اٹھا لائے
پناہ مانگیں تو آتی ہے قبر حصے میں
بدن چھپانے گئے تھے کفن اٹھا لائے
تھی انتخاب کی دعوت سرِ مسیحائی
علاج دیکھا تو زخم کہن اٹھا لائے
ہمیں پسند نہ آیا لبِ ہوس جھکنا
ہم اس کے در سے سوالی بدن اٹھا لائے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *