مجھے روز آنکھوں پہ بوسے دے کے سُلا گیا

مجھے روز آنکھوں پہ بوسے دے کے سُلا گیا
مجھے روز آنکھوں پہ بوسے دے کے سُلا گیا
یہ جو سکھ، نحیف و ضعیف پیڑ
یہ شاخ شاخ کا دستِ شفقتِ مستقل
یہ ترے کہیں نہ کہیں پہ ہونے کا خواب، خواب کا سکھ
یہ برف پہ، کانپتی ہوئی دھوپ، دھوپ پہ ہانپتی ہوئی زندگی
یہ ردا،
یہ سبز ردا، بھرم یہ بہار کا
مجھے روز آنکھوں پہ بوسے دے کے سلا گیا
وہ جو درد اٹھتا تھا روز و شب کے کواڑ میں
وہ جو کرب اگتا تھا جھٹپٹے کی دراڑ میں
وہ جہاں جہاں پہ لکھی ہوئی تھی مزاحمت
مری زندگی کے خلاف میری مزاحمت کو گھٹا گیا
مجھے خواب چبھتے ہیں آنکھ میں
مرا زخم زخم جو چھل گیا تھا کسی کی نوکِ ملال سے
ابھی سِل گیا ہے ترے ذرا سا خیال سے
یہ جو آس پاس کسی کے ہونے کی طاقتیں ہیں وجود میں
وہ جو قریہ قریہ پہ سجدہ سجدہ جبین خاک میں گم ہوئی
تو یہیں کہیں میری آستین میں مل گئی
یہ ردائے چاکِ جنون و فکر جو سل گئی
میں نے اپنے ہاتھ سے آستین الٹ کے سانپ جلا دیے
ترے آسرے پہ چلا دیے سبھی کارتوس
پلٹ دیے کئی حوصلے
تو تسلیاں مجھے لے اڑیں
مجھے نیند نیند میں لے اڑیں
مجھے ڈر ہے جیسے کھلے گی آنکھ
کھلی تو کیسے جھپک سکوں گا پلک
پلک بھی جھپک لیا تو یہ دل جو جھوٹے سکون سے ہوا در بدر
یہ جو آدھی آدھی محبتوں کے فریب میں ہے پھنسا گیا
مجھے اپنے تن میں بسا گیا
مجھے ساری رات رُلا گیا
کبھی روتے روتے میں تھک گیا، تو وہ آ گیا
مجھے روز آنکھوں پہ بوسے دے کے سلا گیا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *