ہم شہر میں جب رسم ہوا لائے ہوئے تھے

ہم شہر میں جب رسم ہوا لائے ہوئے تھے
وہ چپ تھی در و بام بھی گھبرائے ہوئے تھے
بارش کو سمیٹے ہوئے تھے پلکوں کے اندر
بادل سا کوئی آنکھ میں لہرائے ہوئے تھے
یہ اور کہ ہم صبر پہ غالب نظر آئے
یہ اور کہ ہم درد کو سمجھائے ہوئے تھے
وہ بچھڑا تو تھے رستے بھی اجڑے ہوئے میرے
اور باغ کے سب پھول بھی کملائے ہوئے تھے
تھا پہلو میں اک زخمِ پریشانِ محبت
اور ہم تھے کہ اُس زخم کو مہکائے ہوئے تھے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *