ہم فقط الجھے ہوئے لوگوں تلک ہیں محدود

ہم فقط الجھے ہوئے لوگوں تلک ہیں محدود
ورنہ یہ سارے ہی احداد کے شک ہیں محدود
ایک منزل کہ جہاں سے ہے ہمارا آغاز
ایک منزل کہ جہاں جنّ و ملک ہیں محدود
ورنہ کُرسی کوئی ان سے بھی پرے کیوں ہوتی
اس سے لگتا ہے کہ یہ ساتوں فلک ہیں محدود
میرے نزدیک فقط روشنی آدھا سچ ہے
میرے نزدیک اسیرانِ چمک ہیں محدود
ہر طرف رقص اجل باعث تفریح ملے
اب تو بستی میں محبان کتھک ہیں محدود
پہلے زائد بھی ہوا کرتے تھے اور بولتے تھے
دم بخود برلب ویران سڑک ہیں محدود
یہ جو دنیا کو بنائے ہوئے ہیں ہم پہ عذاب
مار دے مل کے انھیں بس ٹھکا ٹھک ہیں محدود
نارسائی کے علم داروں کو خاطر میں نہ لا
حوصلہ باندھ مرے دوست لپک ہیں محدود
تیرے دو چار فدائین کی وقعت کیا ہے
یہ مرے سامنے آٹے میں نمک ہیں محدود
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *