یاد اُس شہر نہ جا

یاد اُس شہر نہ جا
یاد اس شہر نہ جا ، اجڑی ہوئی گلیوں سے ڈر لگتا ہے
کون جانے کہ کہاں گھات لگی ہو دکھ کی
کون جان کسی چوراہے کسی موڑ کسی گھر میں چھپی بیٹھی ہو رنجش کوئی
یاد! اس شہر میں گجروں سے سجے ہاتھوں سے دل دکھتا ہے
یاد! اس شہر میں آنکھوں کے پپوٹوں پہ جمے برسوں سے دم گھٹتا ہے
یاد! اس شہر میں گردن کا کوئی تل اگر آنسو میں اتر آیا
تو برسات میں اس سال لہو برسے گا
یاد اس شہر نہ جا
جس میں تمناؤں کی دہلیزوں پر
بارشیں آنے سے پہلے ہی جدائی آجائے
یاد اس شہر میں اب غم کے سوا کچھ بھی نہیں
کوئی ناراض پروسی جو ہوا بھی تو بھلا کیا ہو گا
تجھ کو معلوم ہے؟
ناراضگیاں درد بڑھا دیتی ہیں
نا کوئی بولے گا
نا تجھ کو منائے گا کوئی
خشک آنکھوں کے کسی ترچھے کنارے پہ پڑے
درد بھرے شکوے کی چنگاری سے
دیر تک تجھ کو جلائے گا کوئی
دیر تک تجھ کو رلائے گا کوئی
دیر تک تجھ کو ستائے گا کوئی
یاد! اس شہر نہ جا
یاد! ا شہر نہ جا، اجڑی ہوئی گلیوں سے ڈر لگتا ہے
کون جانے کہ کہاں گھات لگی ہو دکھ کی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *