یک ذرہ زمیں نہیں بے کار باغ کا

یک ذرہ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یک ذرہ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جاده بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خنده ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
تازه نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
تِریاکئِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کده خراب ہے مے کے سراغ کا
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خمکده کِس کے دماغ کا!
جوشِ بہار کلفتِ نظّاره ہے اسدؔ
ہےابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *