سید ارشاد قمر
وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے
وقتِ رخصت تیری چشمِ تر یاد ہے کیسے میرا کٹا پھر سفر یاد ہے خشک ہونٹوں پہ زخمی تبسم لیے بھیگی بھیگی سی تیری نظر…
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کےجو مر جاتے تو اچھا تھا
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کےجو مر جاتے تو اچھا تھا ہم اپنے پیار میں حد سے گزر جاتے تو اچھا تھا بچھڑنے سے ذرا…
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم
مرے ندیم، مرے ہم نفس، مرے ہمدم میں تیرے درد کی تفسیر کس طرح لکھوں میں تیرے شہر کو زندان یا قفس لکھوں تری خاموشیوں…
ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے
ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ…
اس کو بانہوں میں چھپا کر پیار کی باتیں کروں
اس کو بانہوں میں چھپا کر پیار کی باتیں کروں بند ہونٹوں پہ سجے اقرار کی باتیں کروں جس کی آنکھ میں ستارے اور ہونٹوں…
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں
اداس راتیں ہیں خواب سارے اجڑ چکے ہیں ہے آنکھ ویراں کہ سب نظارے اجڑ چکے ہیں مری زمیں پہ گلوں کے چہرے جھلس گئے…
آج روئے ہیں تنہا بڑی دیر تک
آج روئے ہیں تنہا بڑی دیر تک کل ان آنکھوں میں پانی رہے نہ رہے کیا خبر آپ لوٹیں تو میں نہ رہوں میرے غم…
اس سے پہلے کہ آنسو مقدر بنیں
اس سے پہلے کہ آنسو مقدر بنیں اس سے پہلے کہ کوئی ستم توڑ دے آ اسی موڑ پہ مسکراتے ہوئے میں تجھے چھوڑ دوں…
تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے
تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے ہم کہانی پیار کی جو عمر بھر لکھتے رہے اپنے کاندھے پہ رکھے اغیار کی فکر…
دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ
دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ الزام بھی ملے گا تمہیں دوستی کے ساتھ پہرے لگا کے عشق پہ رختِ سفر دیا…
دور اک گائوں میں
دور اک گائوں میں چاند کی چھائوں میں سبز کھیتوں کے دامن میں دو دل ملے عہد و پیماں ہوئے اور گجرے بندھے چاند چمکتا…
راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے
راستے میرے قدموں سے لپٹے رہے تیرے کوچے کا منظر ہچکتا رہا تیری تنہائیاں بھی بلاتی رہیں تیرے شہرِ وفا سے نکل ہی گیا میں…
ذرا سی دیر کو
ذرا سی دیر کو تری گلی کے موڑ پہ اسی شجر کے سائے میں کہ جس کی ایک شاخ پہ کھلا تھا گل بہار کا…
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے
ظلمتوں میں ازسرِ نو کیوں بلاتے ہو مجھے مہربانوں کس لیے اتنا ستاتے ہو مجھے راستے میں نے دکھائے ہیں اجالوں کے تمہیں نقش ہوں…
کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں
کیوں بلندی پا کے ہستی میں اتر جاتا ہوں میں کس لیے احساس کی حد سے گزر جاتا ہوں میں ڈوب جائے گی تو اپنے…
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے
یہ زندگی تو موت سے ابتر لگے مجھے تیرے بغیر کانٹوں کا بستر لگے مجھے دیوار و در کے ساتھ دیچے بھی ہیں مگر ہر…
محبتوں کے نصاب جیسا
محبتوں کے نصاب جیسا وہ ایک چہرہ کتاب جیسا مہکتا ہے میرے قلب و جاں میں وہ شخص کھلتے گلاب جیسا یقیں بھی ہے وہ…