تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے

تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے
ہم کہانی پیار کی جو عمر بھر لکھتے رہے
اپنے کاندھے پہ رکھے اغیار کی فکر و نظر
زندگی کی بھول کو اپنا سفر لکھتے رہے
بے ضمیری بے اصولی بیچ کر افکار میں
سیدھے لوگوں کے لیے اس کو ہنر لکھتے رہے
موسموں کا جبر بھی جن سے نہ رک پایا کبھی
کیا مکاں تھے جن کو ہم دیوار و در لکھتے رہے
وہ مسافر تھے انہیں درکار تھا سایہ فقط]
جو ہمارے ہر شجر کو بے ثمر لکھتے رہے
آگ برساتا رہا سورج ہمارے جسم پر
چاندنی کی داستاں پھر بھی قمر لکھتے رہے
سید ارشاد قمر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *