سمندر پار ہوتی جا رہی ہے

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے
دُعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے
دریچے اب کُھلے ملنے لگے ہیں
فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے
کئی دن سے مرے اندر کی مسجد
خدا بیزار ہوتی جا رہی ہے
مسائل، جنگ، خوشبو، رنگ، موسم
غزل اخبار ہوتی جا رہی ہے
بہت کانٹوں بھری دُنیا ہے لیکن
گلے کا ہار ہوتی جا رہی ہے
کٹی جاتی ہیں سانسوں کی پتنگیں
ہوا تلوار ہوتی جا رہی ہے
کوئی گنبد ہے دروازے کے پیچھے
صدا بیکار ہوتی جا رہی ہے
گلے کچھ دوست آکر مل رہے ہیں
چُھری پر دھار ہوتی جا رہی ہے
راحت اندوری
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *