چھوڑ کر جب وہ بے وفا گیا

چھوڑ کر جب وہ بے وفا گیا تھا
دل مرا ڈوبتا چلا گیا تھا
میں کنارے تلک پہنچ جاتا
مجھ کو واپس بُلا لیا گیا تھا
پہلے ہاتھوں سے صرف دنیا گئی
اب مرے ہاتھ سے خدا گیا تھا
دل میں کچھ حسرتیں بچی ہوئی تھیں
سَیلِ غم وہ بھی تو بہا گیا تھا
کتنے شکوے، گلے، شکایتیں تھیں
اور وہ پھر بھی چپ چلا گیا تھا
میری آنکھوں میں کچھ نہیں تھا وقارؔ
درد سہنا مجھے بھی آ گیا تھا
*
نکالا تھا اگر واں سے تویاں رہنے دیا ہوتا
زمیں سے آسماں پر پھر بُلانا کیا ضروری تھا؟
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *