تو پھر یقین ہی کیوں ہے خدا کے ہونے پر
مِرے اِمام کے درپَے تھے سارے ’’کاف‘‘ صفت
جو مطمئن رہے جَور و جفا کے ہونے پر
اے کربلا کی زمیں! تیری خامشی پر حیف
کہ بَین کیوں نہ کیا اُس عزا کے ہونے پر
مری سکینہ ترے سر پہ ہو سدا چادر
یقیں رِدا کو ہے تیری رِدا کے ہونے پر