جب وہ پشیماں نظر آئے ہیں

جب وہ پشیماں نظر آئے ہیں
موت کے سامان نظر آئے ہیں
ہو نہ ہو اب آ گئی منزل قریب
راستے سنسان نظر آئے ہیں
عشق میں سہمے ہوئے دو آتشانہ
مدتوں انجان نظر آئے ہیں
کھا نہ سکے زندگی بھر جو فریب
ایسے بھی زنداں نظر آئے ہیں
عشق میں کچھ ہم ہی پریشاں نہیں
وہ بھی پریشاں نظر آئے ہیں
ہوش اب آیا ترے جانے کے بعد
گھر میں بیاباں نظر آئے ہیں
کی ہے جو فکر اپنے گریباں کی
لاکھ گریباں نظر آئے ہیں
اُٹھے ہیں ساحل سے جو بے اختیار
ایسے بھی طوفان نظر آئے ہیں
عشق ہے فرسودہ حکایت مگر
نت نئے عنوان نظر آئے ہیں
ہائے رے وہ مدھ بھری آنکھیں خمار
میکدے ویران نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *