سوچتا ہوں کہ مری ذات کبھی

سوچتا ہوں کہ مری ذات کبھی
ہو بھی سکتی ہے کائنات کبھی
اب تو معمول ہے یہاں فرحت
پہلے ہوتے تھے حادثات کبھی
جانتا ہوں مجھے محبت ہے
مل نہ پائے گی اب نجات کبھی
دے رہے ہو تسلیاں مجھ کو
تم نے دیکھی ہیں مشکلات کبھی
اس نے رکھی ہے آج تک دل میں
میں نے کی ہو گی کوئی بات کبھی
جنگ سے پہلے سوچ لینا تھا
میں نے کھائی نہیں ہے مات کبھی
پیار میں جو ہوا ہے میرے ساتھ
ایسا ہو جائے تیرے ساتھ کبھی
اے مرے مولا میں بھی شاعر ہوں
بخش مجھ کو بھی کوئی نعت کبھی
جب مرے دل پہ بوجھ کم ہو گا
آئے گی اس طرح کی رات کبھی
اب مری داستان سنتا ہے
جس کو چبھتی تھی میری بات کبھی
روز گھبرا کے سوچتا ہوں میں
ختم ہو عرصہء حیات کبھی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *