میں نظر سے ایک انداز نظر ہوتا ہوا

میں نظر سے ایک انداز نظر ہوتا ہوا
کون ہے دن رات مجھ میں بے خبر ہوتا ہوا

کھلتا جاتا ہے سمندر بادباں در بادباں
میں سفر کرتا ہوا مجھ سے سفر ہوتا ہوا

ایک وسعت آسماں در آسماں بڑھتی ہوئی
اک پرندہ بال و پر میں تر بتر ہوتا ہوا

ایک پہنائی مکاں سے لا مکاں ہوتی ہوئی
ایک لمحہ مختصر سے مختصر ہوتا ہوا

ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آ گئی
یہ تماشا میں نے دیکھا بام پر ہوتا ہوا

کھینچ لی کس نے طناب خیمۂ صدق و صفا
کون ہے اس دشت غم میں بے ہنر ہوتا ہوا

پریم کمار نظر

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *