محوِ نشاطِ بے کراں ارضِ محن میں آ گئے

محوِ نشاطِ بے کراں ارضِ محن میں آ گئے
لگتا ہے شہر چھوڑ کر ہم کسی بن میں آ گئے
ہجر کے لمبے سلسلے اس پہ غضب کی غیریت
خوابِ بہار کے سبب اجڑے چمن میں آ گئے
رکھتے ہیں کوئی اور خواب سر میں ہے کوئی اور دھن
قیدِ طویل کاٹنے کس کی لگن میں آ گئے
چاروں طرف ہیں میکدے حسن کی ارزشیں بھی ہیں
پیرِ مغاں کی خیر ہو اس کے سخن میں آ گئے
ہاں وہی اک حمام ہے ننگے ہیں جس میں ہم سبھی
اپنے لباس اتار کر رنگ کہن میں آ گئے
عام ہیں بے حجابیاں اٹھتی جوانیوں کے سنگ
خون بھی موجزن سا ہے ولولے تن میں آ گئے
روحیں اداس ہیں بہت دیکھ کے سرد مہریاں
دشتِ حیات الوداع وسوسے من میں آ گئے
ڈاکٹر سعادت سعید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *