اک نئے ڈھنگ سے وہ چوٹ لگانے آیا
موم کے پل سے گزر کر مجھے جانا تھا وہاں
اور سورج ہی مرا ساتھ نبھانے آیا
بالمقابل ہے خزاں، آئینہ خندہ زن ہے
شہر ماضی کو بھلا کون بسانے آیا
میرے پیروں تلے آنکھیں جو بچھاتا تھا کبھی
کانچ کی کرچیاں وہ راہ میں سجانے آیا
فاخرہ بتول