کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے

کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے
تو دل کو دکھا تیرا یہی کام ہے پیارے

تیرے ہی تبسم کا سحر نام ہے پیارے
تو کھول دے گیسو تو ابھی شام ہے پیارے

اس وقت ترا جان جہاں نام ہے پیارے
جو کام تو کر دے وہ بڑا کام ہے پیارے

جب پیار کیا چین سے کیا کام ہے پیارے
اس میں تو تڑپنے ہی میں آرام ہے پیارے

چھوٹی ہے نہ چھوٹے گی کبھی پیار کی عادت
میں خوب سمجھتا ہوں جو انجام ہے پیارے

اے کاش مری بات سمجھ میں تری آئے
میری جو غزل ہے مرا پیغام ہے پیارے

میں ہوں جہاں سو فکر میں سو رنج میں سو درد
تو ہے جہاں آرام ہی آرام ہے پیارے

گو میں نے کبھی اپنی زباں پر نہیں لایا
سب جان رہے ہیں ترا کیا نام ہے پیارے

ہم دل کو لگا کر بھی کھٹکتے ہیں دلوں میں
تو دل کو دکھا کر بھی دل آرام ہے پیارے

کہتا ہوں غزل اور رہا کرتا ہوں سرشار
میرا یہی شیشہ ہے یہی جام ہے پیارے

کلیم عاجز

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *