یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بیکسی میں سحر ہوئی

یہی بیکسی تھی تمام شب اسی بیکسی میں سحر ہوئی
نہ کبھی چمن میں گزر ہوا نہ کبھی گلوں میں بسر ہوئی

یہ پکار سارے چمن میں تھی وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
مرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اس کی خبر ہوئی

مجھے کیا اگر ترے دوش سے تری زلف تا بہ کمر ہوئی
کہ میں ایسا خانہ خراب ہوں کبھی چھاؤں میں نہ بسر ہوئی

تجھے فخر اپنے ستم پہ ہے کہ عصائے راہ نما بنا
مجھے ناز اپنی وفا پہ ہے کہ چراغ راہ گزر ہوئی

میں تری بلا سے اجڑ گیا ترا حوصلہ تو نکل گیا
یہ بڑی خوشی کا مقام ہے کہ یہ عید بھی ترے گھر ہوئی

کلیم عاجز

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *