ہم تجھے کر نہیں سکتے

ہم تجھے کر نہیں سکتے کبھی انکار پیا
تُو پکارے تو چلے آئیں سرِ دار پیا
کون اب تیرے سوا دل کو تسلی دے گا
میرے صاحب اے مرے مونس و غمخوار پیا
بیٹھ جاتا ہوں میں چپ چاپ گھنی چھاؤں میں
دیں صدا جب بھی تری یاد کے اشجار پیا
اب تو روتی ہیں فقط خون کے آنسو آنکھیں
کر دیا ایسا ترے ہجر نے بیمار پیا
اپنی ہر شام لگے شامِ غریباں جیسی
اپنا ہر عکس لگے ہم کو عزادار پیا
پوچھنا اُن سے کبھی، کیا ہے پلٹنا خالی
تجھ کو مل جائیں اگر تیرے طلبگار پیا
ساری دنیا ہی بھلے ہم سے خفا ہو جائے
تم سدا رہنا ہمارے ہی طرفدار پیا
زین ہر شام، ترا ہجر مناتے دوران
ہو گیا آپ خفا خود سے کئی بار پیا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *