میں بناتا ہوں درد کا

میں بناتا ہوں درد کا چہرہ
سارے موسم یہاں تھے جلدی میں
آپ ہی دیر سے یہاں لوٹے
میں تو اب تک بھی انتظار میں ہوں
کس لیے آفتاب کو دیکھا
وہ تو بینائیوں کا دشمن ہے
نا ہی دیکھیں تو راس رہتا ہے
مصلحت ہو نہ جب تلک کوئی
تب تلک یوں کسی کے جانے سے
کوئی جیتا کوئی نہیں مرتا
ایک میت کے پاس لوگوں کو
بین کرتے ہوئے سنا میں نے
اب تو مرنے سے خوف آتا ہے
میرے بارے میں درد پوچھے تو
اس سے کہنا کہ تیرے جیسا ہی
پھرتا رہتا ہے رات گلیوں میں
ایک آواز ہے پرانی سی
گیت گاتی ہے جو امیدوں کے
کوئی محروم ہے زمانوں سے
پیڑ سوکھا ہوا تو ہے لیکن
گھر بنائے ہیں کچھ پرندوں نے
اس لیے ہے ہرا بھرا احساس
ضبط کہنے لگا ہے رو رو کر
میری سانسوں پہ پٹیاں باندھو
میرا سینا ادھڑتا جاتا ہے
میں بناتا ہوں درد کا چہرہ
اور پھر اُس میں رنگ بھرتا ہوں
اور پھر کھل کے ہنستا رہتا ہوں
لوگ بولے کہ زین کیا اب بھی،
ایک ہی شخص ہے متاعِ جاں؟
میں بھی ہاں میں ہی سر ہلاتا ہوں!
بے سبب روشنی نہیں ہوتی
بے قراری کا بوجھ بڑھ جائے
بے خودی کا یقین کر لینا
کتنے آزار ہیں زمانے میں
تم کسی ایک کو بھی اپنا لو
دل کی بولی سمجھ میں آئے گی
لوگ مظلومیت سمجھتے ہیں
کوئی محروم ہے محبت سے
میں تو ظالم اسے سمجھتا ہوں
راہ میں آ گیا سراب مگر
تیرا چہرہ مرے دھیان میں تھا
اس لئے میں بھلا کہاں رکتا
پیڑ کہنے لگا مرا سایہ
میرے ہی واسطے مصیبت ہے
کیا قیامت کا وقت ہے اُس پر
خواہشوں سے ہزار بہتر تھا
حسرتوں سے گریز کر لیتے
درد رہتا نہ اتنی مشکل میں
حادثوں نے سجا دیا ہم کو
ہم کہاں یوں حسین تھے پہلے
پھر رہے ہیں لئے نشاں غم کے
بات جب بات سے نکل آئے
پھر اسے کون روک سکتا ہے
کچھ بہانے تو ساتھ رہتے ہیں
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *