دکھ کا نشاں ابھار کے

دکھ کا نشاں ابھار کے، تم کیوں چلے گئے
تنہائیاں سنوار کے، تم کیوں چلے گئے
آنسو، عذاب، درد، اداسی، غموں کا قہر
آنکھوں میں سب اتار کے، تم کیوں چلے گئے
مجھ کو تمام رات کی چیخیں سنائی دیں
اک شب مجھے پکار کے، تم کیوں چلے گئے؟
اب کیا کروں اداسی بھری شاعری کا میں
اک درد کو نکھار کے، تم کیوں چلے گئے؟
بس چاؤ، پیار، مان تھا، ایسی تھیں حسرتیں
سب حسرتوں کو مار کے تم کیوں چلے گئے؟
میرے تو وہم میں بھی نہیں تھی یہ زندگی
میرے بنا گزار کے تم کیوں چلے گئے
پھر سے کسی کی گھات نے تم کو لبھا لیا
دھوکے میں اعتبار کے، تم کیوں چلے گئے؟
جانے ہمیشہ کے لیے دامن میں ڈال کر
کچھ پھول انتظار کے، تم کیوں چلے گئے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *