دکھ تو یہ تھاکہ میری

دکھ تو یہ تھا
کہ میری تمہاری شناسائی کو کچھ نہ سمجھا گیا
دکھ تو یہ تھا
کہ غزلوں میں، گیتوں میں نظموں میں،
کتنے ہی الزام تھے
جو کہ دینے نہ تھے،
دینے والے نہ تھے
میں نے پھر بھی دیے
اور تم کو دیے۔۔۔۔
دکھ تو یہ تھا کہ تم کیوں وفا دار تھے؟؟؟
اور ہم کس لیے اتنے بیزار تھے؟
قابلِ دار تھے!!!
دکھ تو یہ تھا کہ تم نے چھپایا ہمیں
کیوں چھپایا ہمیں؟؟؟
اس زمانے سے،
ظالم زمانے سے۔۔۔
ہم بے سُرے، بے سکوں، بے کلی کے نمونے
کچھ ایسے نہ تھے کہ تمہاری مقدس پنہ گاہ میں چھپتے پھرتے کبھی
دکھ تو یہ تھا کہ تم نے محبت میں کوئی کمی ہی نہ کی
پھر بھی میرے نہیں ہو سکے
تم بھی میرے نہیں ہو سکے
اور میں اب کسی اور کا ہونے لائق بچا ہی نہیں۔۔۔۔
دکھ تو یہ ہے کہ اب
کوئی دکھ ہی نہیں
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *