چھین کر مجھ سے پھر بیان

چھین کر مجھ سے پھر بیان مِرا
لے گئے ہو کہاں نشان مِرا
میرے کمرے کو مضطرب پا کر
رونے لگتا ہے یہ مکان مِرا
وہ جہاں آنکھ سے ہوا اوجھل
بس وہیں رہ گیا ہے دھیان مِرا
ہجر اُس کا بڑے سلیقے سے
لینے آیا ہے امتحان مِرا
کیا بتاؤں کہ کس قدر ناراض
مجھ سے رہتا ہے خاندان مِرا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *