تو سمندر کوئی دھارا تو

تو سمندر، کوئی دھارا تو نہیں ہو سکتا
یہ محبت ہے کنارا تو نہیں ہو سکتا
دور ہونے سے محبت تو نہیں مر سکتی
پاس ہو کر یہ اشارہ تو نہیں ہو سکتا
گرد چہرے پہ مسافت کی بھی ہو سکتی ہے
اب میں ہر کھیل میں ہارا تو نہیں ہو سکتا
میرے جیتے بھی تمہارا جو نہیں ہے تو سنو
میرے مرنے پہ تمہارا تو نہیں ہو سکتا
تو نے اپنا تو لیے شہر کے آداب مگر
یوں میری جان گزارا تو نہیں ہو سکتا
بس یہی بات سمجھنے سے ہے قاصر مرا دل
ہر کوئی شخص ہمارا تو نہیں ہو سکتا
ایک لمحے میں تجھے زین اجاڑا جس نے
اس کا تو جان سے پیارا تو نہیں ہو سکتا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *