تمہیں معلوم تھا ناں

تمہیں معلوم تھا ناں سب؟؟
تمہیں معلوم تھا تو کیوں نہیں مجھ کو بتایا تھا؟
کہ آگے راستے اپنے علیحدہ ہونے والے ہیں
بتا دیتے تو پھر شائد اداسی جھیل نہ ہوتی
مرے سکھ کے پلوں کو پھر کبھی تعطیل نہ ہوتی
مرے دل میں دکھوں کی پھر کوئی زنبیل نہ ہوتی
تو میرا نام بھی گمنام ہی رہتا حریمِ جاں!
محبت کے صحیفے میں پروتا درد میں کیسے؟
تمہارے ہاتھ میں گر پیار کی انجیل نہ ہوتی!
تمہاری آنکھ سے بچھڑا، کسے دیکھے؟ کہاں جائے؟
تمہاری بات سے بچھڑا، سُنے کیسے؟ کہے کیسے؟
تمہارے لمس سے بچھڑا بھلا کیسے،
کسی کو چھو سکے اور پھر اَمر کر دے؟
بڑا بے رحم حملہ کر دیا ہے مل کے دکھڑوں نے
تمہیں معلوم تھا تو کیوں نہیں مجھ کو بتایا تھا؟
کہ لمبے راستوں پر مجھ کو خالی ہاتھ چلنا ہے
مرے اندر تمہارا درد پلنا ہے
تمہیں سب کچھ پتا تھا ناں!
تو بولو کیوں؟؟؟؟؟؟؟
تو بولو کیوں بھلا مجھ سے چھپایا تھا؟
کہو ناں کس لیے چپ ہو؟ او بولو ناں!
نہ جانے کیوں نہیں تم بولتے، بولو گے بھی تو کیا؟
اگر کچھ بولنا ہوتا تو پہلے ہی بتا دیتے
میں پھر بے وقعت و بے مایہ و بے آبرو ہو کر
نہ یوں تم سے جدا ہوتا!
مگر کیا فرق پڑنا تھا اگر تم کو نہیں معلوم ہوتا تو؟
جدائی ہی مقدر تھی تو پھر جانا تو پڑنا تھا
مجھے اس بات کا دکھ تو نہیں بالکل، متاعِ دل،
نوائے دل، دوائے دل، حریمِ جاں!
مجھے تو بس یہی دکھ مار دیتا ہے
کہ تم سب جانتے کیوں تھے؟
تمہیں معلوم ہی کیوں تھا؟
کہ جی بھر بھر کے چہرہ دیکھنے والی سریلی،
اور ان مخمور آنکھوں کو بہت بے نور ہونا ہے
سدا کے واسطے تم کو بھی مجھ سے دور ہونا ہے
مرے دل پر لگے ہر زخم کو ناسور ہونا ہے
مجھے سکھ بھول جانے ہیں
دکھوں سے چور ہونا ہے۔۔
بہت مجبور ہونا ہے۔۔۔
بہت مجبور ہونا ہے۔۔۔۔
تمہیں معلوم تھا ناں سب۔۔۔۔؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *