اس کی آنکھوں کے سمندر

اس کی آنکھوں کے سمندر میں اترنے کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں تھا ڈوب مرنے کے سوا
تم سمیٹو گے کہاں تک جائو اپنی راہ لو!
کچھ بھی تو آتا نہیں مجھ کو بکھرنے کے سوا
کیا مرے زخموں پہ مرہم بھی لگائو گے کہو؟
تم تو کرتے ہی نہیں کچھ بھی سنورنے کے سوا
ہم کہ بس قیدِ محبت میں پڑے ہیں آج بھی
سب کیا ہے مرحلہ یہ پار کرنے کے سوا
میری مرضی پوچھنے والے تمہیں معلوم ہے!
اور تم سے کیا کہوں گا میں ٹھہرنے کے سوا
اس کے سب جھوٹے دلائل ماند پڑنے لگ گئے
کچھ نہیں کر پائے گا اب وہ مکرنے کے سوا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *