صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں

صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں
موسم حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا
اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں
ہوں سیہ مست سر زلف صنم معذور رکھ
شیخ اگر کعبے سے آوے گفتگو درہم کروں
ریزۂ الماس یا مشت نمک ہے کیا برا
جو میں اپنے ایسے زخم سینہ کو مرہم کروں
گرچہ کس گنتی میں ہوں پر ایک دم مجھ تک تو آ
یا ادھر ہوں یا ادھر کب تک شمار دم کروں
بس بہت رسوا ہوا میں اب نہیں مقدور کچھ
وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں
گو دھواں اٹھنے لگا دل سے مرے پر پیچ و تاب
میرؔ اس پر قطع ربط زلف خم در خم کروں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *