عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت

عجب نہیں ہے نہ جانے جو میرؔ چاہ کی ریت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
مت ان نمازیوں کو خانہ ساز دیں جانو
کہ ایک اینٹ کی خاطر یہ ڈھاتے ہیں گے مسیت
غم زمانہ سے فارغ ہیں مایہ باختگاں
قمار خانۂ آفاق میں ہے ہار ہی جیت
ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے
ہمارے عندیے میں تو ہے وہ خبیث پلیت
کسو کے بستر و سنجاب و قصر سے کیا کام
ہماری گور کے بھی ڈھیر میں مکاں ہے مبیت
ہوئے ہیں سوکھ کے عاشق طنبورے کے سے تار
رقیب دیکھو تو گاتے ہیں بیٹھے اور ہی گیت
شفق سے ہیں در و دیوار زرد شام و سحر
ہوا ہے لکھنؤ اس رہگذر میں پیلی بھیت
کہا تھا ہم نے بہت بولنا نہیں ہے خوب
ہمارے یار کو سو اب ہمیں سے بات نہ چیت
ملے تھے میرؔ سے ہم کل کنار دریا پر
فتیلہ مو وہ جگر سوختہ ہے جیسے اتیت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *