کیا محبت نے دشمنی کی ہے
کیسی سرخ و سفید نکلی تھی
مے مگر دختر ارمنی کی ہے
بید سا کیوں نہ سوکھ جاؤں میں
دیر مجنوں سے ہم فنی کی ہے
اس پریشان کو نشانہ کر
یار نے جمع افگنی کی ہے
کر دیا خاک آسماں نے ہمیں
یہ بھی ہمت اسی دنی کی ہے
تکیہ ویراں فقیر کا بھی ہو
یاں خرابی بہت غنی کی ہے
قافلہ لٹ گیا جو آنسو کا
عشق نے میرؔ رہزنی کی ہے