پہروں چواؤ ان نے رکھا بات بات کا
جرأت سے گرچہ زرد ہوں پر مانتا ہے کون
منھ لال جب تلک نہ کروں پانچ سات کا
کیونکر بسر کرے غم و غصہ میں ہجر کے
خوگر جو ہو کسو کے کوئی التفات کا
جاگہ سے لے گیا ہمیں اس کا خرام ناز
ٹھہراؤ ہوسکا نہ قرار و ثبات کا
ڈرتا ہوں مالکان جزا چھاتی دیکھ کر
کہنے لگیں نہ واہ رے زخم اس کے ہاتھ کا
واعظ کہے سو سچ ہے ولے مے فروش سے
ہم ذکر بھی سنا نہیں صوم و صلوٰت کا
بھونکا کریں رقیب پڑے کوئے یار میں
کس کے تئیں دماغ عفف ہے سگات کا
ان ہونٹوں کا حریف ہو ظلمات میں گیا
پردے میں رو سیاہ ہے آب حیات کا
عالم کسو حکیم کا باندھا طلسم ہے
کچھ ہو تو اعتبار بھی ہو کائنات کا
گر یار میرؔ اہل ہے تو کام سہل ہے
اندیشہ تجھ کو یوں ہی ہے اپنی نجات کا