چاہتی ہے آخر کیا آگہی خدا معلوم

چاہتی ہے آخر کیا آگہی خدا معلوم
کتنے رنگ بدلے گی زندگی خدا معلوم

کل تو خیر اے رہبر تیرے ساتھ رہرو تھے
آج کس پہ ہنستی ہے گمرہی خدا معلوم

اب بھی صبح ہوتی ہے اب بھی دن نکلتا ہے
جا چھپی کہاں لیکن روشنی خدا معلوم

راستی گریزاں ہے آشتی ہراساں ہے
کس سے کس سے الجھے گا آدمی خدا معلوم

اب تو وقت آیا ہے ڈوب کر ابھرنے کا
کتنی کشتیاں ڈوبیں اور ابھی خدا معلوم

ذوق نغمۂ پیرائی تو ہی بڑھ کے دے آواز
کب سے غرق حیرت ہے خامشی خدا معلوم

صرف بھیک مانگی تھی ہم نے آدمیت کی
کیوں بپھر گئے یعقوب مدعی خدا معلوم

یعقوب عثمانی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *