کہتے تو ہیں کہ ہم کو اس کی طلب نہیں کچھ

کہتے تو ہیں کہ ہم کو اس کی طلب نہیں کچھ
پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ
اخلاص و ربط اس سے ہوتا تو شور اٹھاتے
لب تشنہ اپنے تب ہیں دلبر سے جب نہیں کچھ
یاں اعتبار کریے جو کچھ وہی ہے ظاہر
یہ کائنات اپنی آنکھوں میں سب نہیں کچھ
رکھ منھ کو گل کے منھ پر کیا غنچہ ہو کے سوئے
ہے شوخ چشم شبنم اس کو ادب نہیں کچھ
دل خوں نہ ہووے کیونکر یکسرورائے الفت
یا سابقے بہت تھے یا اس سے اب نہیں کچھ
یہ حال بے سبب تو ہوتا نہیں ہے لیکن
رونے کا لمحہ لمحہ ظاہر سبب نہیں کچھ
کر عشق میرؔ اس کا مارے کہیں نہ جاویں
جلدی مزاج میں ہے اس سے عجب نہیں کچھ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *