کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو

کھینچنا رنج و تعب کا دوستاں عادت کرو
تب کسی ناآشنائے مہر سے الفت کرو
روٹھ کر منتا نہیں وہ شوخ یوں کیوں نہ کوئی
عذر چاہو دیر تک مدت تلک منت کرو
کب تک اے صورت گراں حیراں پھروں بے روئے یار
نقش اس کا کھینچ رکھنے کی کوئی صورت کرو
انس اگر ان نو خطان شہر سے منظور ہے
اپنی پرچھائیں سے بھی جوں خامہ تم وحشت کرو
کچھ نہ پوچھو صحبت دیروزہ کی کم فرصتی
جوں ہی جا بیٹھے لگا کہنے انھیں رخصت کرو
عشق میں کیا دخل ہے نازک مزاجی کے تئیں
کوہکن کے طور سے جی توڑ کر محنت کرو
پہلے دیوانے ہوئے پھر میرؔ آخر ہو گئے
ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *