کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم

کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم
تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم
ہجر میں پاتا نہیں گریے کے سر رشتے کو میں
ہر سحر اٹھ باندھ دے ہے آنسوؤں کا تار چشم
گوئیا ناسور زخم دل تھی یہ اے ہم نشیں
پیش ازیں کیا کیا سمیں دکھلاتی تھی خوں بار چشم
سینکڑوں ہوں کشتنی تو لاویں کچھ تاب نگاہ
ایک دو کا کام کب ہے اس سے ہونا چار چشم
جرم کیا غیروں کا طالع چشم پوشی کرتے ہیں
دیکھ کر احوال میرا موند لے ہے یار چشم
روز و شب وا رہنے سے پیدا ہے میرؔ آثار شوق
ہے کسو نظارگی کا رخنۂ دیوار چشم
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *