اس کتے نے کر کے دلیری صید حرم کو مارا ہے
باغ کو تجھ بن اپنے بھائیں آتش دی ہے بہاراں نے
ہر غنچہ اخگر ہے ہم کو ہر گل ایک انگارا ہے
جب تجھ بن لگتا ہے تڑپنے جائے ہے نکلا ہاتھوں سے
ہے جو گرہ سینے میں اس کو دل کہیے یا پارہ ہے
راہ حدیث جو ٹک بھی نکلے کون سکھائے ہم کو پھر
روئے سخن پر کس کو دے وہ شوخ بڑا عیارہ ہے
کام اس کا ہے خوں افشانی ہر دم تیری فرقت میں
چشم کو میری آ کر دیکھ اب لوہو کا فوارہ ہے
بال کھلے وہ شب کو شاید بستر ناز پہ سوتا تھا
آئی نسیم صبح جو ایدھر پھیلا عنبر سارا ہے
کس دن دامن کھینچ کے ان نے یار سے اپنا کام لیا
مدت گذری دیکھتے ہم کو میرؔ بھی اک ناکارہ ہے