مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے

مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے
فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے
بلا انداز ہے اس کا قیامت ناز ہے اس کا
اٹھے فتنے ہزار اس سے ہوئے لاکھوں فساد اس سے
نزاکت جیسی ہے ویسا ہی دل بھی سخت ہے اس کا
اگرچہ شیشۂ جاں ہے پہ بہتر ہے جماد اس سے
کسے ہیں بند ان نے کیسے کس درویش سے ملیے
جو ایسے سخت عقدوں کی طلب کریے کشاد اس سے
بھلا یوں گھٹ کے مریے کب تلک دل خوں ہوا سارا
جو کوئی دادگر ہووے تو کریے جا کے داد اس سے
لگے ہی ایک دو رہتے ہیں مہلت بات کی کیسی
ہوا ہے دشمنوں کو کچھ قیامت اتحاد اس سے
پہنچ کر تہ کو ہم تو محض محرومی ہی پاتے ہیں
مراد دل کو پہنچا ہو گا کوئی نامراد اس سے
لیے ہی میان سے رہتا ہے کوئی یہ نہیں کہتا
نکالا ہے کہاں کا تو نے اے ظالم عناد اس سے
ادھر توبہ کرے ہے میرؔ ادھر لگتا ہے مے پینے
کہاں تک اب تو اپنا اٹھ گیا ہے اعتماد اس سے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *